میری دادای اماں کا نام غلام فاطمہ تھا‘ 1947ء میں وہ انڈیا سے اپنے چار یا پانچ بچوں کے ہمراہ پاکستان ہجرت کرکے آئیں جن میں میرے ابو بھی تھے اور وہ شیرخوار تھے‘ دادا جان کہیں پیچھے رہ گئے تھے‘ وہ ڈیڑھ ماہ بعد پہنچے تھے‘ پھر یہاں آکر کچھ عرصہ بعد دادا جان فوت ہوگئے‘ ان دنوں میری پانچ پھپھوجان‘ ایک چچا اور میرے ابو کے علاوہ کل سات بہن بھائی تھے‘ میری دادای ایک نیک عورت تھیں‘ نماز‘ روزہ تو کبھی چھوٹا نہیں تھا‘ میرے دادا اکیلے بھائی تھے کوئی مدد کرنے والا‘ کوئی ساتھ نبھانے والا نہ تھا‘ میری دادی نے ایک ڈی سی کے گھر کھانا پکانے کی نوکری کرکے اپنے بچوں کو پالا‘ انڈیا میں میری دادی کے والدین اور سسرال والے بہت امیر اور کئی مربع زمینوں کے مالک تھے‘ دادی اماں کے رشتہ داروں نے ان سے کاغذات لے کر دھوکہ دہی سے کلیم کی جگہ وغیرہ اپنے نام کروالی‘ الغرض میری دادی نے بہت عزت کی زندگی گزاری‘ وہ اپنے رب سے بہت محبت کرنے والی خاتون تھیں‘ پھر ایک بیٹا جوانی میں فوت ہوگیا (چچاجان) تو ان کے یتیم اور ایک پھوپھا فوت ہوگئے تو اس پھوپھی کے یتیم بچوں کو پالا‘ اپنی اولاد کو نیکی اور سچائی کے رستے پر چلایا اور انہیں حلال اور کم عمر میں زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھایا‘ وہ رات کے پورے ایک بجے جائے نماز پر بیٹھ جاتی تھیں اور صبح سورج نکلنے کے بعد جائے نماز سے اٹھتیں‘ سردی‘ گرمی‘ آندھی‘ طوفان‘ موت زندگی‘ دکھ تکلیف کوئی بھی چیز ان کے اس کام میں رکاوٹ نہ بنتی تھی حتیٰ کہ انہیں دو دفعہ ہارٹ اٹیک ہوا جب ہوش آیا تو سب سے پہلے کہتیں مجھے وضو کروا دو‘ میری نماز قضاء ہوجائے گی‘ اب ان کی موت کا حال سنیں:۔ جمعہ کا دن تھا‘ عصر کی نماز کا وقت تھا‘ وہ اپنی پوتی اوربہو سے کہنے لگیں: مجھے وضو کروا دو‘ عمر تقریباً سو سال یا اس سے کچھ اوپر تھی‘ وضو کرلیا‘ جائے نماز بچھا کر نماز عصر شروع کردی‘ سجدہ میں چلی گئیں‘‘ اب ہماری بھابھی ساتھ ہی چولہے میں آگ جلا رہی تھیں‘ کہنی لگیں: میں نے کتنی دیر لگا کر آگ جلائی‘ اندر سے برتن لاکر چولہے پر چڑھا دیا اور اماں جان سجدے سے نہیں اٹھ رہیں‘ کہتی ہیں میں سوچ رہی ہوں کہ اماں سجدے تو پہلے بھی لمبے کرتی تھیں آج تو اتنی دیر ہوگئی چیک تو کروں اماں چونکہ دل کی مریضہ تھیں تو ہمیں فکر ہوجاتی ہم اماں کو آواز دیتے تو اماں جی اپنا سر سجدہ سے اٹھالیتیں اور ہمیں اطمینان ہوجاتا تو بھابھی کہتی ہیں کہ میں نے کئی آوازیں دیں‘ اماں جی! اماں جی تو مجھے فکر ہوئی جب میں نے اماں کو جاکر ہلایا تو اماں جی میری گود میں لڑھک گئیں‘ نہ جانے کب کی سجدے کی حالت میں ان کی روح اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگئی تھی۔اسی طرح میرے ابوجی ان کا نام فقیر محمد تھا‘ بیوہ ماں کے ساتھ مزدوری کرکے اپنے بہن بھائیوں کو پالا‘ بہن‘ بھائیوں کی شادیاں کیں‘ اماں جس ڈی سی کے گھر کھاناپکاتیں تھیں وہاں میرے ابو سکول سے آکر ان کو ہاتھ والا پنکھا جھلتے تھے جس کے بدلے میں وہ دو روٹیاں دیتےتھے جن کو وہ سات بہن بھائی اور آٹھویں میری دادی اماں مل بانٹ کر پانی کے ساتھ کھالیتے تھے۔ شام میں میرے ابو پانی کے کھال(صاف پانی کی چھوٹی سی نہر) کے سائیڈوں پر اگنے والی گھاس کاٹ کر بیچتے شاید ایک آنے کی بتاتے تھے اور گھر کی باقی ضروریات پوری کرتے تھے۔ میری دادی سختی سے کہتی تھیں کہ گھاس کسی کے کھیت سے کھود کر نہیں لانی‘ کھیتوں میں جو پانی کے کھال ہوتے ہیں ان کے کنارے سے کھود کر لانا ایسا نہ ہو کسی کے کھیت کی گھاس ہو اور ہماری روزی حرام ہوجائے۔ میرے والد بھی دادی کی طرح بچپن سے ہی صوم و صلوٰۃ کے سختی سے پابند تھے‘ اماں نے ابو کو پاک فوج میں بھرتی کروا دیا جہاں میرے ابو نے ساتھ ساتھ تعلیم بھی جاری رکھی اور وہ نیوی کے انجینئر بن گئے اور اتنے بڑے انجینئر بنے کہ سعودی حکومت کی جانب سے دو اچھے انجینئرز کی ڈیمانڈ آنے پر میرے ابو اور کراچی کے ان کے ایک فیلو سیلیکٹ ہوگئے اور اللہ رب العزت نے اپنے گھر کی سرزمین پر بلایا‘ پھر تو بہت سال دمام شہر میں گزارے‘ اماں جی کو حج بھی کروا دیا اور خود بھی کئی حج کیے‘ ہمیں کہتے انسان کو اپنی اوقات کبھی نہیں بھولنی چاہیے‘ میں آج جہاں ہوں میری ماں کی دعا اور اللہ کا احسان ہے لیکن وہ وقت کبھی نہیں بھولا جب میں ایک آنے کا گھاس بیچ کر آتا تھا تو اپنے بہن بھائیوں کی ضروریات پوری کرتا تھا پھر اللہ تعالیٰ نے اتنا دیا اتنا دیا کہ لوگ ہمارے دروازے پر اپنی ضروریات کیلئے آتے‘ ہر وقت کھانا پینا‘ لنگر کی طرح چلتا‘
غریبوں کو کاروبار کیلئے پیسے دیتے‘ دے کر لینا بھول جاتے‘ کوئی ادھار لے جاتا تو واپس نہ مانگتے‘ اپنے بھائی کے یتیم بچوں کی اور بہن کے یتیم سات بچوں کی پرورش کی‘ بہن کو اپنی تھوڑی بہت جو کلیم میں ملی ہوئی جگہ تھی اس جگہ مکان بنا کر دیا‘ ان کے بچوں کے خرچے‘ پڑھائیاں حتیٰ کہ انہیں کاروبار بھی کرکے دئیے‘ ہمارے قریب مسجد کی تعمیر ہورہی تھی وہاں جاکر مزدوروں کے ساتھ کام کرواتے‘ سخت گرمی میں اور رمضان کے روزے کے ساتھ دل کے مریض تھے‘ ہماری پچھلی گلی میں مسجد تھی وہاں تک جاتے ہوئے تین بار سانس لے کر وہاں پہنچتے۔ میری والدہ لڑتیں کہ آپ تو خود بیمار ہیں‘ آپ وہاں مزدوروں کے ساتھ اتنی گرمی اور روزہ میں کام کرواتے ہیں تو کہتے تم مجھے جنت کمانے سے کیوں روکتی ہوں؟ تم نہیں چاہتی کہ میں جنت میں جاؤں جب اس مسجد کی تعمیر کے دوران مسجد کے جتنے بھی مزدور‘ مستری تھے ان کا دو وقت کا کھانا اور دو وقت کی چائے گھر سے بنا کر دی‘ جبکہ ان دنوں کاروباری حالات بہت خراب تھےاور واقعی غیب سے اللہ نے سبب بنا دیا اور خرچہ چلتا رہا‘ تقریباً چھ ماہ دس بندوں کا کھانا دو وقت بنتا رہا اور دودھ پتہ دو وقت۔موت والے دن جمعہ کامبارک دن تھا‘ نہائے دھوئے غسل کیا‘ ڈاڑھی کا خط بنایا اور سفید کپڑے پہنے‘ ان کے دوست دیکھ کر ہنستے اور کہتے کہ آج تو حاجی صاحب پر بڑا روپ آیا ہے‘ جمعہ پڑھا‘ رات عشاء کی نماز کے بعد اللہ ھو کا ذکر کررہے تھے تو رات کو تکلیف ہوئی تو ایک ساتھی ساتھ تھے کہنے لگے میں نے پیچھے سے جاکر پکڑا تو میرے سینے پر گرگئے اور کہتے مجھے ذرا پنکھے کے نیچے کردو میرا دل گھبرا رہا ہے وہ کہتے ابھی میں نے ہلایا بھی نہیں میرے سینے پر گرگئے اور منہ آسمان کی طرف اٹھایا اور بلند آواز سے پڑھا لا الہ الا اللہ محمدرسول اللہ پھر کہتے کچھ دیر چپ رہے پھر زور زورسے اللہ ھو کا ذکر کرنا شروع ہوگئے اور اللہ ھو پڑھتے ہوئے ہی جان جان آفرین کے سپرد کردی۔ تہجد کے بہت زیادہ پابند تھے‘ جب میں نے ان کا آخری دیدار کیا تو ہونٹ پھیلے ہوئے اور اوپر والے دانت نظر آرہے تھے جیسے بہت زیادہ خوشی سے باچھیں پھیل جاتی ہیں اور چہرے پر ایسا اطمینان تھا جو آج تک نہیں بھولتا۔ ان کی قبر کی مٹی سے کئی دن تک خوشبو آتی رہی جو کہ میں نے خود بھی سونگھی۔ بے شک انسان جیسی زندگی گزارتا ہے اس کا خاتمہ ویسا ہی ہوتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں